Guftgoo 2 (Wasif Ali Wasif)
گُفتگُو 2 از واصف علی واصف
عرض حال
لب پر آ کر رہ گئی ہے عرض حال
کیا کرے خورشید سے ذرہ سوال
)واصف علی واصف)
واصف صاحبؒ کی گفتگو کی محفل کا جب اختتام ہوجاتا تو محفل کے شرکاء کو اپنے اپنے گھر جانے کی اجازت مل جاتی مگرصرف چند اصحاب وہاں سے روانہ ہوتے اور باقی لوگ اسی طرح سر جھکائے اور زبان بند کیے اپنی کیفیت میں سرشار بیٹھے رہتے۔ دیکھنے والے کو صاف نظر آ تا کہ گفتگو کی تاثیر نے وہ جادو کیا ہے کہ پاؤں بِنا زنجیر کے زمین کے ساتھ جکڑے گئے ہیں۔ اس صورت حال کو بھانپ کر قبلہ واصف صاحبؒ فردا فردا سب سے کچھ گفتگو کر تے، کوئی بات پوچھ لیتے یا گھر واپس جانے کے لیے سواری کے بارے میں دریافت کرتے۔ یوں ایک ایک کر کے سب کو روانہ کرتے۔ محفل کی گفتگو سے پیدا ہونے والی وارفتگی کو جنون بننے سے پہلے ہی آپ اس کی ترفيع او تشفی فرمادیتے۔ اس طرح کا منظر بہت ہی عرصہ بعد دیکھنے میں آیا تھا ایسا منظر جس نے لاہور کی ادبی، علمی اور روحانی فضا کو معطر اور منور کر دیا تھا۔ ان کا علم اس قدر بے کراں تھا کہ
بعض اوقات خودان کو دشواری پیش آتی تھی کہ
اس لدنی بارش کے کس کس حصے کو چھپائیں اور کس کو بیان کریں کیونکہ انہیں سامعین کے
ظرف اور ضرورت کا مکمل احساس ہوتا تھا۔ ان کی سب سے بڑی کوشش یہ ہوتی تھی کہ علم
بیان کرنے کے دوران اپنی ذات اور اپنے مقام کومکمل اخفاء میں رکھیں اور اس میں وہ
بہت حد تک کامیاب تھے مگر روشنی اور خوشبو کو کون روک سکتا ہے۔ لوگ جوق در جوق
تلاش علم کے لیے آ نکلتے ۔ انہوں نے اس علم کا
زیادہ تر وہ حصہ بیان کیا ہے جس کے بیان کرنے سے اللہ کی مخلوق کی مشکل حل ہو
جائے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ایسا سوال کرو جس کا جواب کسی کتاب سے نہ مل سکے اور پھر
جواب بھی ایسا دیا کرتے تھے جو کسی اور کتاب میں اس صورت سے ابھی تک نہیں آسکا۔ ان
کی حد درجہ کوشش یہ ہوتی تھی کہ جواب مختصر ہو، الفاظ سادہ ہوں اور ایک ایک نقطے کی وضاحت ہو تاکہ
ابلاغ ہرسطح کے ذہن تک بغیر کسی دقت کے ہو سکے۔
وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے تھے کیونکہ آپ کا فرمان تھا کہ جب کوئی شخص ایک سوال
پوچھتا ہے تو دراصل یہ سوال صرف اس کا ذاتی سوال ہی نہیں ہوتا بلکہ ہزاروں، لاکھوں
دوسرے انسانوں کو بھی اس دقت کا سامنا ہوتا
ہے۔ آپ کی گفتگو کی محفل میں خاص اور بااِذن اصحاب شریک ہوتے تھے اس لیے سوالات
گوناگوں اور وسیع پس منظر کے حامل ہوا کرتے تھے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے آپ نے
فرمایا کہ یہ گفتگو کیسٹ سے کاغذ پر منتقل کی جائے تا کہ باقی کے سب لوگ بھی اپنے
اپنے سوال کا جواب پائیں اور ان کی مشکلیں حل ہوں۔ اسی حکم کے
پیش نظر گفتگو کا دوسرا والیوم پیش کیا جارہا ہے تا کہ علم و ادب اور عرفان وآ گہی
کی یہ امانت اپنے اپنے حق دار تک پہنچ جائے۔
No comments:
Post a Comment