Saari Bhool Hamari Thi (Rahat Jabeen)
ساری بُھول ہماری تھی از رحت جبیں
پیش لفظ
سنو! تم میری ماما سے کہہ سکتی ہو کہ میں کل تمہارے ساتھ تمہارے گھر گئی تھی۔ میں نے سراٹھا کراُن نوخیز چہروں کے عقب کی کہانی کھوجنے کی سعی کی۔
کیوں؟
"میری کزن نے کل مجھے "اُس" کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔"
میں ساکت سی رہ گئی۔ میں انہیں روکنا چاہتی تھی۔ انہیں بتانا چاہتی تھی کہ "اے نوخیز تتلیو! یہیں رک جاؤ۔ ورنہ تمہارے پرجل جائیں گے۔۔۔ کہکشاں سمجھ کر جس رستے پر قدم رکھا ہے۔۔۔ وہاں پاؤں فگار ہوتے ہیں۔
وہ مجھ سے دور جا چکی تھیں اور میں آنکھوں میں آئی دھند کے پار سفید یونیفارم میں موجود لڑکیوں کو دیکھ رہی ہوں۔۔۔ میرا ماضی میرا ہاتھ پکڑ کر مسکرارہا ہے۔ جہاں میں اور فاخرہ اپنے اپنے بیگ کندھوں پر لٹکائے، فائل ہاتھوں میں پڑے اپنے نئے نئے جوگرز کو دیکھ رہی تھیں۔
آج کالج میں پہلا دن تھا۔۔۔
"امی السلام علیکم! ابائی السلام علیکم"
اورابائی کا ہاتھ ہم دونوں کے سروں پر باری باری ٹھہرا۔ (تب وہ ہاتھ اتنا بوڑھا نہیں تھا۔)
"بیٹا! سیدھے کالج جانا اور سیدھے گھر آنا ہے۔"
اس ایک جملے کی نصیحت نے ہمارے گرد حدود و قیود کی جو حد باندھی ۔ تو پھر ایک قدم ادھر سے ادھر نہ پڑا۔ کیوں کہ میرا ایمان ہے جب کوئی اپنے ماں باپ کو دھوکا دیتا ہے تو دراصل وہی دھوکا خود کو دے رہا ہوتا ہے۔ میں یہی سوچ، یہی مضبوطی ہرلڑکی میں یکھنا چاہتی ہوں۔
اپنےحق کے لیے لڑو، جدوجہد کرو کہ یہ تمہاراحق ہے۔
مگر جیت نہ سکو تو ہار جاؤ۔ مگر کوئی تیسرا راستہ اختیار نہ کرو۔ کیوں کہ بیٹیاں پھول ہیں، تتلیاں ہیں، آنگن کی چڑیا ہیں، مگر بیٹیاں اپنے والدین کا فخروغرور بھی ہوتی ہیں۔ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہوتی ہیں۔
مجھے اس کہانی کے بارے میں کچھ نہیں کہنا۔۔۔ کیوں کہ اسے آپ لوگ پڑھ چکے، جو کچھ میں نے لکھا اسے سمجھ بھی چکے۔ اس میں ہر کردار کا انجام بہت مثبت ہے۔۔۔ کیوں کہ کتنا ہی غلط ہو جائے اگر زندگی ہے تو اللہ راستے نکال ہی دیتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی غلطیاں کرتا ہے، خمیازہ بھگتتا ہے اور احساس کے بعد پھرسے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہی زندگی ہے یہی زندگی کا چلن۔
مجھے اس کہانی کے بارے میں کچھ نہیں کہنا۔۔۔ کیوں کہ اسے آپ لوگ پڑھ چکے، جو کچھ میں نے لکھا اسے سمجھ بھی چکے۔ اس میں ہر کردار کا انجام بہت مثبت ہے۔۔۔ کیوں کہ کتنا ہی غلط ہو جائے اگر زندگی ہے تو اللہ راستے نکال ہی دیتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی غلطیاں کرتا ہے، خمیازہ بھگتتا ہے اور احساس کے بعد پھرسے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہی زندگی ہے یہی زندگی کا چلن۔
یہ کہانی میرے موسموں کی روایتی کہانی سے مختلف ہے۔۔۔۔ کیوں کہ مجھ پرکچھ حق میرے قلم کا بھی ہے۔۔۔۔۔ اب میں صرف راحت نہیں،ُم ابیہا بھی تو ہوں۔۔۔ ایک بیٹی کی ماں۔۔۔
مجھے اپنے قارئین پر بھروسا ہے۔ وہ میرے روایتی چلن سے ہٹ کر لکھی کہانیوں کوبھی اتنی محبت سے پڑھیں گے۔
خدا کرے سبز موسم ہمیشہ سب کے آنگن میں کھلتے رہیں۔ آمین۔
آپ کی دعاؤں کی طلبگار
راحت جبیں
No comments:
Post a Comment