Ae Waqt Gawahi Dey (Rahat Jabeen)
اے وقت گواہی دے از راحت جبیں
اے وقت گواہی دے
پریویس کی کلاسز شروع ہونے کے دن سے لے کر آج تک وہ دیکھ رہی تھی کہ وہ نوجوان مسلسل اس کا پیچھا کر رہا تھا ۔ شروع میں تو زارا عمیر نے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی کہ یونیورسٹی تھی جہاں تعلیم کے لیے سنجیدہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ان جیسوں کی بھی کمی نہ تھی، جن کا مقصد محض وقت گزاری کے لیے جامعہ کا ماحول خراب کرنا تھا۔ مگر اب اتنے دن گزر جانے کے بعد وہ اسے نظر انداز نہیں کرسکتی تھی، سو لاشعوری طور پر اس کی نگاہیں اپنے اردگرد اسے تلاش کرنے لگتیں اور زارا عمیر کو بھی کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی تھی ۔ وہ ہمیشہ اس کے آس پاس ہی موجود ہوتا۔ لائبریری میں عین سامنے والی ٹیبل پر، ڈیپارٹمنٹ کے باغیچے میں پڑے بنچ پر، سیمینار روم میں اس کے عقب والی سیٹ پر اور کیفے ٹیریا میں وہ ہمیشہ اس سے پہلے ہی موجود ہوتا۔
حالانکہ اس نے زارا سے بھی کچھ نہ کہا تھا۔ مگر زارا کو اس کا ٹکٹکی باندھ دکر دیکھنا نا گوار گزرتا، ایک الجھن کا شکار کر دیتا تھا۔ وہ گھر میں بھی جھنجلاہٹ کا شکار رہتی کہ ہمہ وقت اعصاب پر سوار رہنے لگا تھا۔
زارا نے اپنے عین سامنے دیکھا- وہ سامنے بنچ پر بظاہر کتاب کھولے مگر اسی پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ۔ مگر وقفے وقفے سے نظریں زارا پر ٹھہر جاتیں اور جو بھی اتفاقا زارا کی نگاہیں اس سے مل جاتیں تو وہ گھبرا کر دوبارہ سے کتاب پر جھک جاتا۔
یہ کیا احمقانہ حرکت ہے؟“ زارا نے شاید یہی الفاظ بڑ بڑائے تھے جب انعم نے چونک کر اس سے پوچھا۔۔
تم کہیں پہنچ گئی ہو۔۔۔۔
”ہاں؟ وہ چونک کر زارا کی طرف متوجہ ہوئی ۔
بھئی یوں چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے والے کہیں نہ کہیں تو پہنچے ہی ہوتےہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment