Baba Sahiba (Ashfaq Ahmed)
بابا صاحبا از اشفاق احمد
بابا صاحبا.... ایک واجبی سا تعارف
باباصاحب ایک مختلف قسم کا ادب ہے جو آسانی سے تحریر میں نہیں آ سکتا۔ اس ادب پارے پر خاں صاحب کی یادوں کی برسات موسلا دھار نہیں بلکہ رات کے پچھلے پہر بوندا باندی کی صورت ادھ کھلے در پچوں پر جھنکار بن کر توجہ طلب رہتی ہے۔
یاد کا بھی کچھ کراماتی سلسلہ ہے۔ عام طور پر ایسے واقعات اور حالات آ دمی کی یاد میں رہ جاتے ہیں جن کا تعلق ناکامی، ٹریجڈی، احساس کمتری اور احساس جرم سے ہوتا ہے۔ خوشی کے واقعات قوس قزح کی طرح انسان کے ذہنی افق پر ابھرتے ہیں اور پھر جلد محو ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی سو فیصد والا اصول نہیں بلکہ ان ہی یادوں کی رنگارنگی سے ان کے جداگانہ تجربے سے زندگی کا تارو پود بنتا ہے۔۔۔ میں نے خاں صاحب کے ساتھ رہ کر دیکھا کہ انہی یادوں نے اُن کی تلاش کے راستے کھولے۔ وہ اپنی ناکامیوں سے جاننا چاہتے تھے کہ انسان کا اصل مقصد کیا ہے؟ وہ یہاں کیوں ہے اور کیا حاصل کرنا چاہتاہے۔۔۔۔
اس تلاش کے سلسلے میں ہی وہ بالوں کے پیچھے بھاگے۔ کبھی افسانے لکھے، کبھی ڈرامے، کبھی زاویے میں جاسر نکالا۔ عام انسان اپنی تلاش کو اپنی ذات پر سوار نہیں کرتا۔ وہ زندگی کے معنی تلاش کرنے پر بضد نہیں ہوا
کرتا۔۔۔ لیکن خاں صاحب کی یادیں سوہان روح تھیں۔ وہ اُس تلاش کو چھوڑ نہیں سکتے تھے جس نے ان کا شانتی سے سونا جاگنا حرام کر دیا تھا۔
میں تو ان کے قریب رہنے کے ناطے آپ کو تھوڑا سا جھانک کر اندازے لگا کر ہی بتاسکتی ہوں ۔ سالم پورے اشفاق احمد کا سراغ شاید آپ کو باباصاحبا سے حاصل ہو۔۔۔۔۔۔۔ توسفر جاری کیجیۓ۔۔۔۔۔۔ آپ بھی شاید کچھ نہ کچھ تلاش کر لیں
دعائیں۔۔۔۔۔۔
بانوقُدسیه
داستان سرائے
No comments:
Post a Comment